پریشاں تھا مگر ایسا نہیں تھا
کہ مجھ میں کوئی تجھ جیسا نہیں تھا
تباہ ہونے لگی ہر وقت وہ بھی
اکیلا میں ہی دیوانہ نہیں تھا
جفا غم ہجر خواہش یاد باتیں
اگر دیکھو تو اس میں کیا نہیں تھا
غضب جلوہ نما تھا وصل اس کا
ابھی تک سوچتا ہوں تھا نہیں تھا
تمہارے عشق کے ہاتھوں سے مرنے
ہمیں آنا پڑا آنا نہیں تھا
وہیں سے جسم اس کا کانپتا تھا
جہاں پر میں اسے چھوتا نہیں تھا
محبت تھی نہ تھی یہ بات چھوڑو
جو تم نے کہہ دیا کہنا نہیں تھا
غزل
پریشاں تھا مگر ایسا نہیں تھا
ساون شکلا