EN हिंदी
پریشاں ہوں ترا چہرہ بھلایا بھی نہیں جاتا | شیح شیری
pareshan hun tera chehra bhulaya bhi nahin jata

غزل

پریشاں ہوں ترا چہرہ بھلایا بھی نہیں جاتا

عمران ساغر

;

پریشاں ہوں ترا چہرہ بھلایا بھی نہیں جاتا
کسی سے حال دل اپنا سنایا بھی نہیں جاتا

وہ آ جائے تو یہ بھی کہہ نہیں سکتا ٹھہر جاؤ
اگر وہ جا رہا ہو تو بلایا بھی نہیں جاتا

زباں خاموش رہتی ہے پر آنکھیں بول دیتی ہیں
ان آنکھوں سے تو راز دل چھپایا بھی نہیں جاتا

سبھی عمرانؔ کی صورت نہیں ہوتے ہیں دنیا میں
ہر اک انسان کو دل میں بسایا بھی نہیں جاتا

کوئی طاقت مجھے مرنے نہیں دیتی ہے اے ساگرؔ
میں مرنا چاہتا ہوں زہر کھایا بھی نہیں جاتا