پرائی آگ میں یوں جل بجھے شرر میرے
کھلے نہ مجھ پہ بھی احوال بیشتر میرے
ہے زرد رینگتے سایوں کی زد میں شاخ گلاب
تم آئے ہو بھی تو کس رت میں آج گھر میرے
سزا وجود سے بھی قبل ہو چکی مقسوم
خبر نہ رکھ مری اس درجہ بے خبر میرے
چھتوں پہ سایہ کناں بیل جل گئی ہوگی
سلگ اٹھے ہیں کچھ اس طور بام و در میرے
ہمارے بیچ سرابوں کا ایک رشتہ تھا
کہاں بچھڑ گئے صحرا میں ہم نظر میرے
وہ راکھ بنتی ہوئی گونج میں ستارہ بار
سرہانے کون پریشاں تھا رات بھر میرے
اتر رہی تھی کرن برف کی چٹانوں پر
چلا گیا وہ مجھے خواب سونپ کر میرے
گزر گئی شب یلدا تو یہ ہوا معلوم
سرنگ پار بھی دشمن تھے ہم سفر میرے
دیار باد جنوب اے دیار باد جنوب
تجھے سکون تو ہے گل بکھیر کر میرے
میں طاق طاق ہوں شاہینؔ کب سے شمع بکف
کہ زینہ زینہ وہ اترے کبھی تو گھر میرے
غزل
پرائی آگ میں یوں جل بجھے شرر میرے
ولی عالم شاہین