پر جبریل بھی جس راہ میں جل جاتے ہیں
ہم وہاں سے بھی بہت دور نکل جاتے ہیں
محفل دل کو ہے مانگے کے اجالے سے گریز
دیپ داغوں کے سر شام ہی جل جاتے ہیں
صاف اڑ جاتا ہے خاصان خرابات کا رنگ
ہم وہ مے خوار ہیں پی پی کے سنبھل جاتے ہیں
اک حقیقت ہی حقیقت ہے ازل ہو کہ ابد
ویسے افسانوں کے عنوان بدل جاتے ہیں
دیکھیے نقش کف پائے وفا کا اعجاز
راستے دودھ کے مانند ابل جاتے ہیں
زندگی اصل میں تعمیر محبت ہے حیاتؔ
دے کے ہم دہر کو پیغام عمل جاتے ہیں

غزل
پر جبریل بھی جس راہ میں جل جاتے ہیں
حیات مدراسی