پلکوں سے آسماں کو اشارہ کرو کبھی
آنسو ہمارے غم کا ستارہ کرو کبھی
موسم جواں ہوا ہے بہاروں کے نور سے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظارہ کرو کبھی
تنہائیوں کی راتوں میں اب ہم سے شرم کیا
ملبوس خامشی کا اتارا کرو کبھی
دہلیز پر کھڑے یوں سر راہ رفتگاں
اپنا بھی انتظار گوارا کرو کبھی
دل شے عجیب ہے کہیں ہم لوٹ ہی نہ جائیں
اس احتیاط سے نہ پکارا کرو کبھی
یہ جاں تماری نذر ہے چاہے تو جان لو
یہ دل تمہارا گھر ہے سنوارا کرو کبھی
غزل
پلکوں سے آسماں کو اشارہ کرو کبھی
ناظر وحید