پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے
جوہر ہیں غم کے غم کے ترازو میں تولیے
شام غم فراق کے پہلو میں بیٹھ کر
آئی کسی کی یاد تو چپکے سے رو لئے
موندی گئیں جو آنکھیں تو آئے وہ دیکھنے
آ کر بھی کہہ نہ پائے کہ آنکھیں تو کھولیے
دیکھا جو قدر غم کی نہیں ہے جہان میں
لے کر وہ بیج دل میں محبت سے بو لیے
جاگے ہوئے تھے ہم جو تمنا کے باب میں
صبح مراد پا کے اچانک ہی سو لئے
لکھا ہوا تھا کل بھی وفا کے مزار پر
آئے ہو در پہ دل کے تو ہولے سے کھولیے
دیکھا جو دل کو چپ تو وفاؤں نے یہ کہا
اتنی طویل شب ہے ارے کچھ تو بولئے

غزل
پلکوں پہ سج رہے ہیں جو موتی نہ رولیے
اویس الحسن خان