پلکوں پہ لے کے بوجھ کہاں تک پھرا کروں
اے خواب رائیگاں میں بتا تیرا کیا کروں
وہ ہے بضد اسی پہ کہ میں التجا کروں
کچھ تو بتا اے میری انا اب میں کیا کروں
پانے کی جد و جہد میں عمریں گزر گئیں
اک بار تجھ کو کھونے کا بھی حوصلہ کروں
ہر آنے والا بزم میں تیری ہے محترم
تعظیم کو میں سب کی کہاں تک اٹھا کروں
ہر اک ورق ہے تجھ سے شروع اس کتاب کا
تو ہی بتا کہاں سے میں اب ابتدا کروں
ہے زیر غور اپنی ہی چاہت کا احتساب
تیری وفا پہ کیا میں ابھی تبصرہ کروں
غزل
پلکوں پہ لے کے بوجھ کہاں تک پھرا کروں
جاوید نسیمی