پلکوں پہ لرزتے رہے آنسو کی طرح ہم
گھر میں ترے مہکا کئے خوشبو کی طرح ہم
سورج کے لئے چھوڑا تھا اس نے ہمیں پھر بھی
راتوں کو ستاتے رہے جگنو کی طرح ہم
آتے رہے جاتے رہے کشتی کے مسافر
پیروں سے لپٹتے رہے بالو کی طرح ہم
ریکھا ہے کھنچی اور نہ ہے سیتا کوئی گھر میں
اس شہر میں کیوں پھرتے ہیں سادھو کی طرح ہم
غیروں سے زیادہ ہمیں اپنوں نے ستایا
اس ملک میں زندہ رہے اردو کی طرح ہم
غزل
پلکوں پہ لرزتے رہے آنسو کی طرح ہم
شکیل شمسی