EN हिंदी
پلکوں پر موتی رکھے ہیں سوچوں پر سناٹا ہے | شیح شیری
palkon par moti rakkhe hain sochon par sannaTa hai

غزل

پلکوں پر موتی رکھے ہیں سوچوں پر سناٹا ہے

مرغوب علی

;

پلکوں پر موتی رکھے ہیں سوچوں پر سناٹا ہے
تعبیروں کا شور بہت ہے خوابوں پر سناٹا ہے

آنکھوں سے باتیں کرنے کا موسم ہے خاموش رہو
اور تو سب کچھ جائز ہے یاں لفظوں پر سناٹا ہے

دن تو خیر گزارے ہم نے ہنس کر بھی چپ رہ کر بھی
لیکن جب سے بچھڑے ہیں تم سے راتوں پر سناٹا ہے

شاید اب موسم کے پنچھی آئیں تو چہکار اڑے
چڑیوں کے گھر جب سے اجڑے پیڑوں پر سناٹا ہے

کون سے دن ہیں بچوں کے بن رستے سونے سونے ہیں
کوئی زلف نہیں لہراتی گلیوں پر سناٹا ہے

کس سے کہہ کر ہلکے ہو لیں کوئی اب ملتا ہی نہیں
دل میں ہوک بہت اٹھتی ہے ہونٹوں پر سناٹا ہے