پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارا تھا
ساحل کی اس بھیڑ میں جانے کون ہمارا تھا
کہساروں کی گونج کی صورت پھیل گیا ہے وہ
میں نے اپنے آپ میں چھپ کر جسے پکارا تھا
سر سے گزرتی ہر اک موج کو ایسے دیکھتے ہیں
جیسے اس گرداب فنا میں یہی سہارا تھا
ہجر کی شب وہ نیلی آنکھیں اور بھی نیلی تھیں
جیسے اس نے اپنے سر سے بوجھ اتارا تھا
جس کی جھلملتا میں تم نے مجھ کو قتل کیا
پت جھڑ کی اس رات وہ سب سے روشن تارا تھا
ترک وفا کے بعد ملا تو جب معلوم ہوا
اس میں کتنے رنگ تھے اس کے کون ہمارا تھا
کون کہاں پر جھوٹا نکلا کیا بتلاتے ہم
دنیا کی تفریح تھی اس میں ہمیں خسارا تھا
جو منزل بھی راہ میں آئی دل کا بوجھ بنی
وہ اس کی تعبیر نہ تھی جو خواب ہمارا تھا
یہ کیسی آواز ہے جس کی زندہ گونج ہوں میں
صبح ازل میں کس نے امجدؔ مجھے پکارا تھا
غزل
پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارا تھا
امجد اسلام امجد