پلٹ پلٹ کے میں اپنے پہ خود ہی وار کروں
وہ میری زد میں کھڑا ہے میں کیا شکار کروں
گھروں پہ خون چھڑکتی ہوا میں گزری ہیں
عبادتوں کو گنوں یا گنہ شمار کروں
دھوئیں کے پھول منڈیروں پہ روز کھلتے ہیں
میں کیا رتوں کے تغیر پہ اعتبار کروں
پرندے جب بھی بسیروں کو لوٹتے دیکھوں
میں گھر میں بیٹھ کے اپنا بھی انتظار کروں
میں شب کو تیرتے تاروں سے خوف کھا جاؤں
میں دن کو ڈوبتے تنکوں پہ انحصار کروں
غزل
پلٹ پلٹ کے میں اپنے پہ خود ہی وار کروں
شفقت سیٹھی