پلک پلک سیل غم عیاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
کسک یہ کیسی درون جاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
ہماری بستی میں ہر طرف انقلاب نو کا عمل تھا جاری
نہ جانے یہ کون سا جہاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
لہو اچھلنے کا شور جیسے فضا میں گونجا کبھی نہیں تھا
یہ حکم شہر ستمگراں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
ہو صبح روشن کہ شام رنگیں کسی میں کوئی کشش نہیں ہے
ہر ایک خواہش دھواں دھواں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
نئے زمانے کی میں بشارت کا منتظر ہوں مگر ابھی تک
حیات ایسے رواں دواں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
ہجوم صوت و صدا سڑک پر جلوس بن کر نکل پڑا ہے
سماعتوں کا یہ امتحاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
میں اپنے اندر جہاں چھپا ہوں کوئی نہ پہنچا وہاں ابھی تک
سکوت ہر سمت بے کراں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
فضا کی رونق زمیں کی سج دھج قلم کی جنبش پہ منحصر ہے
عجیب پابندیٔ زباں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
مرے تصور کی نیلگوں جھیل میں ایک تارا جہاں گرا تھا
وہاں خموشی بلائے جاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
بڑھوں تو آگے دھوئیں کے بادل ہٹوں تو پیچھے بلاؤں کے دل
یہ کیسا منظر یہاں وہاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
سکوت سینے میں ایسا کب تھا گماں بھی گزرے نہ دھڑکنوں کا
خدا ہی جانے کہ دل کہاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
غزل
پلک پلک سیل غم عیاں ہے نہ کوئی آہٹ نہ کوئی ہلچل
نصرت گوالیاری