پک گئی ہیں عادتیں باتوں سے سر ہوں گی نہیں
کوئی ہنگامہ کرو ایسے گزر ہوگی نہیں
ان ٹھٹھرتی انگلیوں کو اس لپٹ پر سینک لو
دھوپ اب گھر کی کسی دیوار پر ہوگی نہیں
بوند ٹپکی تھی مگر وہ بوندوں بارش اور ہے
ایسی بارش کی کبھی ان کو خبر ہوگی نہیں
آج میرا ساتھ دو ویسے مجھے معلوم ہے
پتھروں میں چیخ ہرگز کارگر ہوگی نہیں
آپ کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کر دئیے جائیں گے پر
آپ کی تعظیم میں کوئی کسر ہوگی نہیں
صرف شاعر دیکھتا ہے قہقہوں کی اصلیت
ہر کسی کے پاس تو ایسی نظر ہوگی نہیں
غزل
پک گئی ہیں عادتیں باتوں سے سر ہوں گی نہیں
دشینتؔ کمار