پیہم تلاش دوست میں کرتا چلا گیا
کونین کی حدوں سے گزرتا چلا گیا
جتنا مذاق عشق سنورتا چلا گیا
رنگ طبیعت اور نکھرتا چلا گیا
اک سنگ دل کی دیدہ دلیری تو دیکھنا
شکوؤں کا اعتراف بھی کرتا چلا گیا
بے چارگی تو دیکھیے مجبور شوق کی
تہمت مقدرات پہ دھرتا چلا گیا
دیتے رہے فریب مسرت وہ پے بہ پے
میں غم کی منزلوں سے گزرتا چلا گیا
تصویر یاس و غم تھی بظاہر نہاں مگر
ہر نقش دل ہی دل میں ابھرتا چلا گیا
دل محو اضطراب نظر ساکت و خموش
یہ کون سامنے سے گزرتا چلا گیا
غزل
پیہم تلاش دوست میں کرتا چلا گیا
شکیل بدایونی