پیہم اک اضطراب عجب خشک و تر میں تھا
میں گھر میں آ رکا تھا مرا گھر سفر میں تھا
کیا روشنی تھی جس کو یہ آنکھیں ترس گئیں
کیا آگ تھی کہ جس کا دھواں میرے سر میں تھا
بس ایک دھند خوابوں کی فکر و خیال میں
بس ایک لمس درد کا شام و سحر میں تھا
ہر عہد کو سمیٹے ہوئے چل رہا تھا میں
نادیدہ ساعتوں کا اجالا نظر میں تھا
ہر لمحہ تھا تلاش کی صدیاں لیے ہوئے
میری بقا کا راز ہی علم و خبر میں تھا

غزل
پیہم اک اضطراب عجب خشک و تر میں تھا
اکبر حیدری