پہنچا ہوں آسماں پہ تجھے ڈھونڈھتا ہوا
اے مختصر بسیط ستارے قریب آ
بکھرے ہوئے طلب کے تقاضے ادھر ادھر
کپڑے گلاس قہقہے ساحل پہ جا بہ جا
بیٹا سنو کہا یہ مجھے اک بزرگ نے
محدود کس قدر ہے یہ ٹکڑا زمین کا
ان بستیوں کے پار ادھر دور اس طرف
لرزاں ہے خوف مرگ سے انسان آج کا
پاگل سا ایک آدمی کل دور تک مجھے
مڑ مڑ کے دیکھتا گیا پہچانتا گیا

غزل
پہنچا ہوں آسماں پہ تجھے ڈھونڈھتا ہوا
مراتب اختر