EN हिंदी
پہنچا ہے آج قیس کا یاں سلسلہ مجھے | شیح شیری
pahuncha hai aaj qais ka yan silsila mujhe

غزل

پہنچا ہے آج قیس کا یاں سلسلہ مجھے

شیر محمد خاں ایمان

;

پہنچا ہے آج قیس کا یاں سلسلہ مجھے
جنگل کی راس کیوں نہ ہو آب و ہوا مجھے

آنا اگر ترا نہیں ہوتا ہے میرے گھر
دولت سرا میں اپنے ہی اک دن بلا مجھے

وہ ہووے اور میں ہوں اور اک کنج عافیت
اس سے زیادہ چاہیے پھر اور کیا مجھے

پیدا کیا ہے جب سے کہ میں ربط عشق سے
بیگانہ جانتا ہے ہر ایک آشنا مجھے

کافر بتوں کی راہ نہ جا آ خدا کو مان
پیر خرد نے گرچہ کہا بارہا مجھے

پر کیا کروں کہ دل ہی نہیں اختیار میں
اس خانما خراب نے عاجز کیا مجھے

پہلے ہی اپنے دل کو نہ دینا تھا اس کے ہاتھ
ایمانؔ اب تو کوئی پڑی ہے وفا مجھے