EN हिंदी
پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے | شیح شیری
pahunch kar shab ki sarhad par ujala Dub jata hai

غزل

پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے

غیاث انجم

;

پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے
نہ ہو جس کا کوئی وہ بے سہارا ڈوب جاتا ہے

جسے گاتا ہے کوئی بربط صد چاک داماں پر
فضائے بے یقینی میں وہ نغمہ ڈوب جاتا ہے

یہاں تو دل کی باتیں ہیں ہمارا تجربہ ہے یہ
جو سطح آب پر رکھیے تو پیسہ ڈوب جاتا ہے

تعلق دیر سے مضبوط کرتا ہے جڑیں اپنی
ذرا سی چوک سے صدیوں کا رشتہ ڈوب جاتا ہے

تری یادوں کی دنیا سے کبھی جو دور ہوتا ہوں
اداسی گھیر لیتی ہے نظارا ڈوب جاتا ہے

نہ جانے کیا ہو تیرے شہر میں اب جا کے دیکھوں گا
یہاں تو اپنی قسمت کا ستارہ ڈوب جاتا ہے

ابل پڑتا ہے آفت کا کہیں لاوا تو پھر انجمؔ
غم و اندوہ میں معصوم چہرہ ڈوب جاتا ہے