پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے
نہ ہو جس کا کوئی وہ بے سہارا ڈوب جاتا ہے
جسے گاتا ہے کوئی بربط صد چاک داماں پر
فضائے بے یقینی میں وہ نغمہ ڈوب جاتا ہے
یہاں تو دل کی باتیں ہیں ہمارا تجربہ ہے یہ
جو سطح آب پر رکھیے تو پیسہ ڈوب جاتا ہے
تعلق دیر سے مضبوط کرتا ہے جڑیں اپنی
ذرا سی چوک سے صدیوں کا رشتہ ڈوب جاتا ہے
تری یادوں کی دنیا سے کبھی جو دور ہوتا ہوں
اداسی گھیر لیتی ہے نظارا ڈوب جاتا ہے
نہ جانے کیا ہو تیرے شہر میں اب جا کے دیکھوں گا
یہاں تو اپنی قسمت کا ستارہ ڈوب جاتا ہے
ابل پڑتا ہے آفت کا کہیں لاوا تو پھر انجمؔ
غم و اندوہ میں معصوم چہرہ ڈوب جاتا ہے

غزل
پہنچ کر شب کی سرحد پر اجالا ڈوب جاتا ہے
غیاث انجم