پہلو میں درد عشق کی دنیا لیے ہوئے
بیٹھا ہوں زندگی کا سہارا لیے ہوئے
دل ہے تجلیٔ رخ زیبا لیے ہوئے
آغوش میں ہے چاند کو دریا لیے ہوئے
پہنچے تو دل میں جوش تمنا لیے ہوئے
لوٹے مگر لٹی ہوئی دنیا لیے ہوئے
میں جی رہا ہوں غم کدۂ روزگار میں
تیری محبتوں کا سہارا لیے ہوئے
اٹھتا ہوں بزم حسن سے لغزش بپا شکیلؔ
بہکی سی اک نظر کا سہارا لیے ہوئے
غزل
پہلو میں درد عشق کی دنیا لیے ہوئے
شکیل بدایونی