پہلو میں چین سے دل مضطر نہ رہ سکا
دم بھر نہ رک سکا یہ گھڑی بھر نہ رہ سکا
اب اضطراب حد سے ہمارا گزر گیا
رکھا جو ہم نے ہاتھ تو دلبر نہ رہ سکا
تم لے کے پھیرتے ہو جو دل کچھ سبب بھی ہے
کیوں کر نہ رکھ سکے اسے کیوں کر نہ رہ سکا
میں ہوں کہ نقش پا ہوں صبا ہو کہ مدعی
ان کی گلی میں کوئی بھی جم کر نہ رہ سکا
اے نوحؔ اب کہاں اسے لے جا کے پھینک دوں
لو ان کے پاس بھی دل مضطر نہ رہ سکا
غزل
پہلو میں چین سے دل مضطر نہ رہ سکا
نوح ناروی