EN हिंदी
پہلو میں چین سے دل مضطر نہ رہ سکا | شیح شیری
pahlu mein chain se dil-e-muztar na rah saka

غزل

پہلو میں چین سے دل مضطر نہ رہ سکا

نوح ناروی

;

پہلو میں چین سے دل مضطر نہ رہ سکا
دم بھر نہ رک سکا یہ گھڑی بھر نہ رہ سکا

اب اضطراب حد سے ہمارا گزر گیا
رکھا جو ہم نے ہاتھ تو دلبر نہ رہ سکا

تم لے کے پھیرتے ہو جو دل کچھ سبب بھی ہے
کیوں کر نہ رکھ سکے اسے کیوں کر نہ رہ سکا

میں ہوں کہ نقش پا ہوں صبا ہو کہ مدعی
ان کی گلی میں کوئی بھی جم کر نہ رہ سکا

اے نوحؔ اب کہاں اسے لے جا کے پھینک دوں
لو ان کے پاس بھی دل مضطر نہ رہ سکا