پہلو کے آر پار گزرتا ہوا سا ہو
اک شخص آئنے میں اترتا ہوا سا ہو
جیتا ہوا سا ہو کبھی مرتا ہوا سا ہو
اک شہر اپنے آپ سے ڈرتا ہوا سا ہو
سارے کبیرہ آپ ہی کرتا ہوا سا ہو
الزام دوسرے ہی پہ دھرتا ہوا سا ہو
ہر اک نیا خیال جو ٹپکے ہے ذہن سے
یوں لگ رہا ہے جیسے کہ برتا ہوا سا ہو
قیلولہ کر رہے ہوں کسی نیم کے تلے
میداں میں رخش عمر بھی چرتا ہوا سا ہو
معشوق ایسا ڈھونڈئیے قحط الرجال میں
ہر بات میں اگرتا مگرتا ہوا سا ہو
پھر بعد میں وہ قتل بھی کر دے تو حرج کیا
لیکن وہ پہلے پیار بھی کرتا ہوا سا ہو
گر داد تو نہ دے نہ سہی گالیاں سہی
اپنا بھی کوئی عیب ہنرتا ہوا سا ہو
غزل
پہلو کے آر پار گزرتا ہوا سا ہو
عادل منصوری