پہلی بار وہ خط لکھا تھا
جس کا جواب بھی آ سکتا تھا
خود افواہ اڑاتا تھا میں
خود ہی یقیں بھی کر لیتا تھا
اس سے کہو اس روپ میں آئے
جیسا پہلی نظر میں لگا تھا
بھول چکا تھا دے کے صدا میں
تب جنگل کا جواب آیا تھا
ہم تو پرائے تھے اس گھر میں
ہم سے کون خفا ہوتا تھا
ٹوٹ گئے اس کوشش میں ہم
اپنی طرف جھکنا چاہا تھا
الجھ رہی تھی آنکھ کہیں پر
کوئی مجھے پہچان رہا تھا
ٹوٹ گیا پھر غم کا نشہ بھی
دکھ کتنا سکھ دے سکتا تھا
جگہ جگہ سے ٹوٹ رہا ہوں
کس نے مجھے چھو کر دیکھا تھا
کتنے سچے دل سے ہم نے
اپنا اپنا جھوٹ کہا تھا
پہلی بار میں اس کی خاطر
اپنے لئے کچھ سوچ رہا تھا
اتنے سمجھانے والے تھے
میں کچھ کیسے سمجھ سکتا تھا
بڑی بڑی آنکھوں میں اس کی
کوئی سوال ہوا کرتا تھا
غزل
پہلی بار وہ خط لکھا تھا
شارق کیفی