EN हिंदी
پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے | شیح شیری
pahle wo qaid-e-marg se mujhko riha kare

غزل

پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے

سعید اختر

;

پہلے وہ قید مرگ سے مجھ کو رہا کرے
پھر ہو تو بے وفائی کا بے شک گلہ کرے

اب کشمکش کے بوجھ کی طاقت نہیں رہی
اب دل میں کوئی آس نہ جاگے خدا کرے

ہو شمع تو بتائے کہ جلتے ہیں کس طرح
جگنو بھی مر گئے ہوں تو پروانہ کیا کرے

وہ حکم دے رہے ہیں مگر سوچتے نہیں
کس طرح کوئی دل کو جگر سے جدا کرے

وہ مشتعل کہ ضد کی بھی ہے انتہا کوئی
ہم منتظر کہ آج مگر ابتدا کرے

اندر کا باغ جس کا بدل جائے دشت میں
وہ شخص تیرے پھول سے چہرے کو کیا کرے

خیرات بھی ملی نہ جہاں سے تمام عمر
اخترؔ وہیں پہ آج بھی بیٹھا دعا کرے