پہلے تو خواب ذہن میں تشکیل ہو گیا
پھر سیل وقت میں کہیں تحلیل ہو گیا
بے نور راستوں میں جو بھٹکے ہوئے تھے لوگ
جگنو بھی ان کے واسطے قندیل ہو گیا
کنکر ملامتوں کے گراتا ہے مثل سنگ
مجھ میں کوئی پرند ابابیل ہو گیا
وقت طلوع آیا گہن آفتاب پر
دن چڑھ رہا تھا رات میں تبدیل ہو گیا
تھا جس غنی کے پاس خزینۂ علم و فن
وہ عہد نو کے ہاتھ میں زنبیل ہو گیا
اپنے گھروں کے کر دئے آنگن لہو لہو
ہر شخص میرے شہر کا قابیل ہو گیا
لوح جبیں پہ وقت نے وہ حرف لکھ دئیے
چہرہ غم حیات کی تفصیل ہو گیا
صد شکر سوزؔ میرے خیالات کے لئے
میرا قلم وسیلۂ ترسیل ہو گیا
غزل
پہلے تو خواب ذہن میں تشکیل ہو گیا
ہیرا نند سوزؔ