EN हिंदी
پہلے تو دام زلف میں الجھا لیا مجھے | شیح شیری
pahle to dam-e-zulf mein uljha liya mujhe

غزل

پہلے تو دام زلف میں الجھا لیا مجھے

گلزار دہلوی

;

پہلے تو دام زلف میں الجھا لیا مجھے
بھولے سے پھر کبھی نہ دلاسا دیا مجھے

کیا دردناک منظر کشتی تھا رود میں
میں نا خدا کو دیکھ رہا تھا خدا مجھے

بیٹھا ہوا ہے رشک مسیحا مرے قریب
کس بے بسی سے دیکھ رہی ہے قضا مجھے

ان کا بیان میری زباں پر جو آ گیا
لہجے نے ان کے کر دیا کیا خوش نوا مجھے

جن کو رہی سدا مرے مرنے کی آرزو
جینے کی دے رہے ہیں وہی اب دعا مجھے

جانے کا وقت آیا تو آئی صدائے حق
مدت سے آرزو تھی ملے ہم نوا مجھے

ہر بام و در سے ایک اشارہ ہے روز و شب
نے میں وفا کو چھوڑ سکا نے وفا مجھے

دنیا نے کتنے مجھ کو دکھائے ہیں سبز باغ
ان سے نہ کوئی کر سکا لیکن جدا مجھے

خوشبو سے کس کی مہک رہے ہیں مشام جاں
دامن سے دے رہا ہے کوئی تو ہوا مجھے

تصویر اس کے ہاتھ میں لب پر مری غزل
دیکھا نہ ایک آنکھ نہ جس نے سنا مجھے

فرد عمل میں میری ہوں شامل سب ان کے جور
ان کے کئے کی شوق سے دیجے سزا مجھے

میری وفا کا ان کو ملے حشر میں صلہ
مل جائیں ان کے نام کے جور و جفا مجھے

ہر روز مجھ کو اپنا بدلنا پڑا جواب
روز اک سبق پڑھاتا ہے قاصد نیا مجھے

دیکھا تمہاری شکل میں حسن ازل کی ضو
سجدہ تمہارے در پہ ہوا ہے روا مجھے

جھونکا کوئی نسیم کا گلزارؔ ناز میں
ان کا پیام کاش سنائے صبا مجھے