EN हिंदी
پہلے تو آتی تھیں عیدیں بھی تمہارے آئے | شیح شیری
pahle to aati thin iden bhi tumhaare aae

غزل

پہلے تو آتی تھیں عیدیں بھی تمہارے آئے

اکرام اعظم

;

پہلے تو آتی تھیں عیدیں بھی تمہارے آئے
خیریت اب کے تم آئے تو اکیلے آئے

تیری بے ساختہ حیرانی کہاں ہے اے دوست
ہم تو آتش کہیں ایندھن کے عوض دے آئے

اب تو رہزن ہی کوئی روکے تو معلوم پڑے
رہنما کیسے اجاڑوں میں ہمیں لے آئے

ہم تو یک رنگ اجالے سے ہی مسحور رہے
روشنی تجھ میں یہ ست رنگ کہاں سے آئے

ہم نے بیچی تھیں جہاں نیندیں اسی منڈی سے
تیری آنکھوں کے لیے خواب سہانے آئے