پہلے تو آتی تھیں عیدیں بھی تمہارے آئے
خیریت اب کے تم آئے تو اکیلے آئے
تیری بے ساختہ حیرانی کہاں ہے اے دوست
ہم تو آتش کہیں ایندھن کے عوض دے آئے
اب تو رہزن ہی کوئی روکے تو معلوم پڑے
رہنما کیسے اجاڑوں میں ہمیں لے آئے
ہم تو یک رنگ اجالے سے ہی مسحور رہے
روشنی تجھ میں یہ ست رنگ کہاں سے آئے
ہم نے بیچی تھیں جہاں نیندیں اسی منڈی سے
تیری آنکھوں کے لیے خواب سہانے آئے

غزل
پہلے تو آتی تھیں عیدیں بھی تمہارے آئے
اکرام اعظم