پہلے ثابت کریں اس وحشی کی تقصیریں دو
کیوں مرے پاؤں میں پہناتے ہیں زنجیریں دو
دونوں زلفوں کا تری آیا جو وحشت میں خیال
پڑ گئیں پاؤں میں میرے وہیں زنجیریں دو
کہاں قاصد نے کہ لایا ہوں میں پیغام وصال
آج خلعت مجھے پہناؤ کہ جاگیریں دو
درد دل درد ہوا سینہ کی سوزش بھی گئی
شربت وصل میں تیرے ہیں یہ تاثیریں دو
یا بہانے سے بلائیں اسے یا خط ہی لکھیں
شرمؔ کیا خوب یہ سوجھیں ہمیں تدبیریں دو
غزل
پہلے ثابت کریں اس وحشی کی تقصیریں دو
شمس النساء بیگم شرمؔ