پہلے مجھ کو بھی خیال یار کا دھوکا ہوا
دل مگر کچھ اور ہی عالم میں تھا کھویا ہوا
دل کی صورت گھٹ رہی ہے ڈوبتے سورج کی لو
اٹھ رہا ہے کچھ دھواں سا دور بل کھاتا ہوا
میں نے بیتابانہ بڑھ کر دشت میں آواز دی
جب غبار اٹھا کسی دیوانے کا دھوکا ہوا
نیند اچٹ جائے گی ان متوالی آنکھوں کی نہ سن
میری ہستی کا فسانہ ہے بہت الجھا ہوا
دل سے ٹکرا جاتی ہے رہ رہ کے کوئی موج زیبؔ
شب کا سناٹا کوئی بہتا ہوا دریا ہوا

غزل
پہلے مجھ کو بھی خیال یار کا دھوکا ہوا
زیب غوری