پہلے کی بہ نسبت ہے مجھے کام زیادہ
دل کو ہے مگر خواہش آرام زیادہ
ناکام رہی شاعری جن پیش رؤں کی
دیتے ہیں عزیزوں کو وہ پیغام زیادہ
کم کوش تھے کج اپنی کلہ رکھ نہیں پائے
باغی نہ بنے اور ہوئے بدنام زیادہ
کچھ ہارے ہوئے بیٹھ کے اب سوچ رہے ہیں
آغاز کیا کم ہوا انجام زیادہ
دنیا سے توقع نہیں کچھ داد و ستد کی
خوباں کو سدا دیتی ہے دشنام زیادہ
غزل
پہلے کی بہ نسبت ہے مجھے کام زیادہ
جمال اویسی