پہلے ہوتا تھا بہت اب کبھی ہوتا ہی نہیں
دل مرا کانچ تھا ٹوٹا تو یہ روتا ہی نہیں
وہ جو ہنستے تھے مرے ساتھ انہیں ڈھونڈوں کہاں
کیسی دنیا ہے جہاں کا کوئی رستہ ہی نہیں
ایک مدت سے میں بیٹھی ہوں یہی آس لیے
چاند آنگن میں مرے کس لیے اترا ہی نہیں
مجھ کو معلوم نہیں رونق محفل کیا ہے
دشت تنہائی سے دل میرا نکلتا ہی نہیں
کیا عجب شخص تھا ہر بات پہ خوش رہتا تھا
وقت کیا بدلا کہ وہ ڈھونڈے سے ملتا ہی نہیں
غزل
پہلے ہوتا تھا بہت اب کبھی ہوتا ہی نہیں
صاحبہ شہریار