EN हिंदी
پہلے ہماری آنکھ میں بینائی آئی تھی | شیح شیری
pahle hamari aankh mein binai aai thi

غزل

پہلے ہماری آنکھ میں بینائی آئی تھی

عمار اقبال

;

پہلے ہماری آنکھ میں بینائی آئی تھی
پھر اس کے بعد قوت گویائی آئی تھی

میں اپنی خستگی سے ہوا اور پائیدار
میری تھکن سے مجھ میں توانائی آئی تھی

دل آج شام سے ہی اسے ڈھونڈنے لگا
کل جس کے بعد کمرے میں تنہائی آئی تھی

وہ کس کی نغمگی تھی جو داروں سروں میں تھی
رنگوں میں کس کے رنگ سے رعنائی آئی تھی

پھر یوں ہوا کہ اس کو تمنائی کر لیا
میری طرف جو چشم تماشائی آئی تھی