EN हिंदी
پہلے درد دل پہ کہتے تھے کہ یہ کیا ہو گیا | شیح شیری
pahle dard-e-dil pe kahte the ki ye kya ho gaya

غزل

پہلے درد دل پہ کہتے تھے کہ یہ کیا ہو گیا

طالب باغپتی

;

پہلے درد دل پہ کہتے تھے کہ یہ کیا ہو گیا
اب یہ کاوش ہے کہ کیوں بیمار اچھا ہو گیا

دل بھی پہلو میں کبھی اک چیز تھا یادش بخیر
اب خدا جانے کہاں جاتا رہا کیا ہو گیا

آ گئے لو وہ عیادت کے لئے خود آ گئے
ہو گیا بیمار درد ہجر اچھا ہو گیا

ایک موتی سا چمکتا ہے سر مژگان ناز
اوج پر کیا میری قسمت کا ستارا ہو گیا

ہو گیا سب میرے شکوؤں کا جواب لا جواب
ان کا شرما کر یہ کہہ دینا تمہیں کیا ہو گیا

کثرت دیدار سے ان کی نگاہیں جھک گئیں
عکس مژگاں کا نقاب روئے زیبا ہو گیا

سہتے سہتے جو نہ سہنا تھا اسے بھی سہہ لیا
پیتے پیتے زیر غم آخر گوارا ہو گیا

آپ ہی پہلے اٹھا دی روئے روشن سے نقاب
آپ ہی پھر پوچھتے ہیں چاند کو کیا ہو گیا

رات بھیگی جا رہی ہے سرد آہیں ہو چلیں
چھوڑ یہ مد ہوشیاں طالبؔ سویرا ہو گیا