EN हिंदी
پہلے چاہت کو تیز کر لے گا | شیح شیری
pahle chahat ko tez kar lega

غزل

پہلے چاہت کو تیز کر لے گا

حبیب کیفی

;

پہلے چاہت کو تیز کر لے گا
پھر وہ مجھ سے گریز کر لے گا

مسکرائے گا بات کرتے ہوئے
بات یوں معنی خیز کر لے گا

دو قدم ساتھ وہ چلے گا پھر
اپنی رفتار تیز کر لے گا

اس کو بیٹی کی شادی کرنی ہے
قرض لے کر جہیز کر لے گا

جب بھی آلودگی کو دیکھے گا
خود کو وہ عطر بیز کر لے گا

آئے گا مجھ سے دوستی کرنے
جب وہ ناخن کو تیز کر لے گا