پہلے بھی کون ساتھ تھا
اب جو کوئی نہیں رہا
وقت ستم ظریف تھا
وقت کا پھر بھی کیا گلہ
کیسی عجیب شام تھی
کیسا عجیب واقعہ
کہنے کو کہہ رہے ہیں لوگ
میں نے تجھے بھلا دیا
قصہ یہ ہے کہ میں تجھے
دل سے کہاں بھلا سکا
ترک تعلقات کا
باقی ہے ایک مرحلہ
باقی ہے اب بھی ذہن میں
خوابوں کا ایک سلسلہ
عشق سے نسبتوں میں ہے
میرے سفر کا راستہ
شام ہوئی تو چل پڑا
ہجر زدوں کا قافلہ
کوہ کنی سے ربط ہے
نام و نسب کا ذکر کیا
غزل
پہلے بھی کون ساتھ تھا
علی وجدان