پہن کے پیرہن گل صبا نکلتی ہے
سیاہیوں کے جگر سے ضیا نکلتی ہے
کبھی تو مجھ کو بھی احساس آشنائی دے
وہ روشنی جو کف گل پہ جا نکلتی ہے
میں آنکھ بند کروں تو بھی ہے وہی منظر
وہ ایک شکل ہر اک رو پہ آ نکلتی ہے
سراب فہم سے آگے کہیں ہے بحر مراد
ہر ایک منزل دل نقش پا نکلتی ہے
کبھی جو کھل کے کروں بات اپنے آپ سے میں
ہر ایک آرزو غم آشنا نکلتی ہے
ہجوم عکس میں چہرہ تلاش کیسے کریں
ہر ایک شکل اساس خلا نکلتی ہے
سرک رہے ہیں اندھیرے ہر ایک بستی سے
عذاب ابر سے قرص وفا نکلتی ہے
مرے یقیں کی گھٹن اور بھی بڑھے ناہیدؔ
ہوا ہو بند تو موج بلا نکلتی ہے
غزل
پہن کے پیرہن گل صبا نکلتی ہے
کشور ناہید

