EN हिंदी
پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی | شیح شیری
pahaDon ko bichha dete kahin khai nahin milti

غزل

پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی

تفضیل احمد

;

پہاڑوں کو بچھا دیتے کہیں کھائی نہیں ملتی
مگر اونچے قدم رکھنے کو اونچائی نہیں ملتی

اکیلا چھوڑتا کب ہے کسی کو لا شعور تن
کسی تنہائی میں بھرپور تنہائی نہیں ملتی

غنیمت ہے کہ ہم نے چشم حسرت پال رکھی ہے
زمانے کو یہ حسرت بھی مرے بھائی نہیں ملتی

فسون ریگ میں موجیں بھی ہیں دلدل بھی ہوتے ہیں
مگر صحرا سمندر تھے یہ سچائی نہیں ملتی

تری خالص کرن کی آگ ہے طیف تصور میں
قزح بنتی نہیں مجھ میں تو بینائی نہیں ملتی

نچوڑی جا چکی ہے مٹی اکہرا ہو گیا پانی
عناصر مل بھی جاتے ہیں تو رعنائی نہیں ملتی

غزل کہہ کے سکوں تفضیلؔ ملتا ہے مگر مٹی
اسے لاوا اگل کر بھی شکیبائی نہیں ملتی