پہاڑ ہونے کا سارا غرور کانپ اٹھا
بس اک ذرا سی تجلی سے طور کانپ اٹھا
ہوا نے جیسے ہی تیور دکھائے ہیں اپنے
نکل رہا تھا دیئے سے جو نور کانپ اٹھا
پڑھی جو جبر و تشدد کی داستان کہیں
کبھی شعور کبھی لا شعور کانپ اٹھا
لبوں پہ آ نہ سکی اپنے دل کی ایک بھی بات
کہ جب بھی پہنچا میں اس کے حضور کانپ اٹھا
سزا کچھ ایسی ملی ایک بے قصور کو آج
ہوا تھا اصل میں جس سے قصور کانپ اٹھا

غزل
پہاڑ ہونے کا سارا غرور کانپ اٹھا
شاہد جمال