پڑتا تھا اس خیال کا سایا یہیں کہیں
بہتا تھا میرے خواب کا دریا یہیں کہیں
جانے کہاں ہے آج مگر پچھلی دھوپ میں
دیکھا تھا ایک ابر کا ٹکڑا یہیں کہیں
دیکھو یہیں پہ ہوں گی تمنا کی کرچیاں
ٹوٹا تھا اعتبار کا شیشہ یہیں کہیں
کنکر اٹھا کے دیکھ رہا ہوں کہ ایک دن
رکھا تھا میں نے دل کا نگینہ یہیں کہیں
اک روز بے خیالی میں برباد ہو گئی
آباد تھی خیال کی دنیا یہیں کہیں
غزل
پڑتا تھا اس خیال کا سایا یہیں کہیں
انعام ندیمؔ