پڑھیے سبق یہی ہے وفا کی کتاب کا
کانٹے کرا رہے ہیں تعارف گلاب کا
کیسا یہ انتشار دیوں کی صفوں میں ہے
کچھ تو اثر ہوا ہے ہوا کے خطاب کا
یہ طے کیا جو میں نے جنوں تک میں جاؤں گا
یہ مرحلہ اہم ہے مرے اضطراب کا
مانا بہت حسین تھا وہ عمر کا پڑاؤ
قصہ مگر نہ چھیڑئیے عہد شباب کا
اظہرؔ کہیں سے نیند کا اب کیجے انتظام
یونہی نکل نہ جائے یہ موسم بھی خواب کا

غزل
پڑھیے سبق یہی ہے وفا کی کتاب کا
اظہر نواز