پڑھ چکے ہیں نصاب تنہائی
اب لکھیں گے کتاب تنہائی
وصل کی شب تمام ہوتے ہی
آ گیا آفتاب تنہائی
خامشی وحشتیں اداسی ہے
کھل رہے ہیں گلاب تنہائی
اس کی یادوں کے گھر میں جاتے ہی
کھل گیا ہم پہ باب تنہائی
وصل کی شب تمہارے پہلو میں
لے رہا ہوں ثواب تنہائی
کس کو بتلائیں کون سمجھے گا
کیسے جھیلے عذاب تنہائی
دوستوں سے گریز کرتا ہوں
ہو رہا ہوں خراب تنہائی

غزل
پڑھ چکے ہیں نصاب تنہائی
یشب تمنا