پڑا ہوں زیر قدم خاک رہ گزر بن کر
جھکا ہوں میں ہمہ تن اس گلی میں سر بن کر
نکل گیا مری آنکھوں سے مثل خواب و خیال
گزر گیا دل روشن سے وہ نظر بن کر
کتاب و خط ہی کے دھوکے میں رہ گئے اغیار
وہ یار آپ ہی آیا پیام بر بن کر
کسی کی تیغ نگہ نے مٹا دیے دھبے
ہمارے داغ جگر کٹ گئے سپر بن کر
مذاقؔ ساقیٔ کوثر مجھے سنبھالیں گے
نشے میں بگڑی طبیعت مری اگر بن کر

غزل
پڑا ہوں زیر قدم خاک رہ گزر بن کر
مذاق بدایونی