EN हिंदी
پڑا ہوا میں کسی آئنے کے گھر میں ہوں | شیح شیری
paDa hua main kisi aaine ke ghar mein hun

غزل

پڑا ہوا میں کسی آئنے کے گھر میں ہوں

سلیم بیتاب

;

پڑا ہوا میں کسی آئنے کے گھر میں ہوں
یہ تیرا شہر ہے یا خواب کے نگر میں ہوں

اڑائے پھرتی ہے ان دیکھے ساحلوں کی ہوا
میں ایک عمر سے اک بے کراں سفر میں ہوں

تجھے یہ وہم کہ میں تجھ سے بے تعلق ہوں
مجھے یہ دکھ کہ ترے حلقۂ اثر میں ہوں

مری تلاش میں گرداں ہیں تیر کرنوں کے
چھپا ہوا میں خنک سایۂ شجر میں ہوں

میں تیری سمت بھی آؤں گا معرفت کو تری
ابھی تو اپنے ہی عرفاں کی رہگزر میں ہوں

تری اڑان میں شامل ہے تربیت میری
مجھے نہ بھول کہ میں تیرے بال و پر میں ہوں

بلا رہا ہے ادھر مجھ کو میرا مستقبل
گھرا ہوا میں ادھر حال کے بھنور میں ہوں

رکھے گی تجھ کو معطر سدا مہک میری
رچا ہوا میں ترے گھر کے بام و در میں ہوں

مری پرکھ کو بھی آئیں گے جوہری بیتابؔ
ہوں لعل تاب مگر شہر کم نظر میں ہوں