پایا مزا یہ ہم نے اپنی نگہ لڑی کا
جو دیکھنا پڑا ہے غصہ گھڑی گھڑی کا
عقدہ تو نازنیں کے ابرو کا ہم نے کھولا
اب کھولنا ہے اس کی خاطر کی گل جھڑی کا
اس رشک مہ کے آگے کیا قدر ہے پری کی
کب پہنچے حسن اس کو ایسی گری پڑی کا
اس گل بدن نے ہنس کر اک لے کے شاخ نسریں
ہم سے کہا کہ کیجے کچھ صف اس چھڑی کا
جب ہم نظیرؔ بولے اے جاں یہ وہ چھڑی ہے
دل ٹوٹتا ہے جس پر جوں پھول پنکھڑی کا

غزل
پایا مزا یہ ہم نے اپنی نگہ لڑی کا
نظیر اکبرآبادی