پاس میں رہ کے نگاہوں سے بچائے رکھنا
اپنے دکھ درد کو اپنوں سے چھپائے رکھنا
ہم گڑا بھاگ گھٹا جوڑ نہیں کر پاتے
اپنی عادت میں ہے رشتوں کو نبھائے رکھنا
خود کو خود سے ہی چھپانے کا طریقہ ہے یہ
اپنی باتوں میں سدا خود کو لگائے رکھنا
پیاس جب ہاتھ اٹھائے تو نہ خالی جائے
بادلو اتنی تو امید جگائے رکھنا
آندھیوں سے کبھی بجھتی نہیں امید کی لو
یوں ہی احساس کے دیپک کو جلائے رکھنا
کچھ بھلے لوگ کہانی کی طرح ملتے ہیں
دکھ کسی کا بھی ہو کاندھے پہ اٹھائے رکھنا

غزل
پاس میں رہ کے نگاہوں سے بچائے رکھنا
پرتاپ سوم ونشی