EN हिंदी
پاس میں رہ کے نگاہوں سے بچائے رکھنا | شیح شیری
pas mein rah ke nigahon se bachae rakhna

غزل

پاس میں رہ کے نگاہوں سے بچائے رکھنا

پرتاپ سوم ونشی

;

پاس میں رہ کے نگاہوں سے بچائے رکھنا
اپنے دکھ درد کو اپنوں سے چھپائے رکھنا

ہم گڑا بھاگ گھٹا جوڑ نہیں کر پاتے
اپنی عادت میں ہے رشتوں کو نبھائے رکھنا

خود کو خود سے ہی چھپانے کا طریقہ ہے یہ
اپنی باتوں میں سدا خود کو لگائے رکھنا

پیاس جب ہاتھ اٹھائے تو نہ خالی جائے
بادلو اتنی تو امید جگائے رکھنا

آندھیوں سے کبھی بجھتی نہیں امید کی لو
یوں ہی احساس کے دیپک کو جلائے رکھنا

کچھ بھلے لوگ کہانی کی طرح ملتے ہیں
دکھ کسی کا بھی ہو کاندھے پہ اٹھائے رکھنا