EN हिंदी
پاس بھی رہ کر دور ہے تو | شیح شیری
pas bhi rah kar dur hai to

غزل

پاس بھی رہ کر دور ہے تو

ناصر شہزاد

;

پاس بھی رہ کر دور ہے تو
میں بے بس مجبور ہے تو

پیاسی اکھیاں ڈھونڈھ تھکیں
بول کہاں مستور ہے تو

روگ اور جوگ اٹوٹ سہی
آس یا پاس ضرور ہے تو

ایک اکیلا میں بے کل
تنہا چکنا چور ہے تو

پیار اقرار سے جوڑ سبھی
میں دنیا دستور ہے تو

ہاتھ سے دور نگہ سے جدا
دل میں نور ظہور ہے تو

ہر چوکھٹ میں نراس اداس
ہر آنگن رنجور ہے تو