EN हिंदी
پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا | شیح شیری
pas apne boriya bistar na tha

غزل

پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا

مختار شمیم

;

پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا
اتنا سرمایہ بھی اپنے گھر نہ تھا

دشت جنگل سائبان و در نہ تھا
میں ہی میں تھا اور کوئی منظر نہ تھا

دائروں میں بھی نہ گزری زندگی
خواہشوں کا بھی کوئی محور نہ تھا

ایک زنجیر ہوس کار نشاط
اور کوئی سلسلہ ہٹ کر نہ تھا

قتل کرتا تھا مجھے وہ پے بہ پے
اس کے ہاتھوں میں مگر خنجر نہ تھا

اپنے ہی ہم زاد سے ڈرتا ہوں میں
یوں کسی آسیب سے کچھ ڈر نہ تھا

ہم یہ سودا اپنے سر میں لے چلے
اس گلی میں ایک بھی پتھر نہ تھا