پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا
اتنا سرمایہ بھی اپنے گھر نہ تھا
دشت جنگل سائبان و در نہ تھا
میں ہی میں تھا اور کوئی منظر نہ تھا
دائروں میں بھی نہ گزری زندگی
خواہشوں کا بھی کوئی محور نہ تھا
ایک زنجیر ہوس کار نشاط
اور کوئی سلسلہ ہٹ کر نہ تھا
قتل کرتا تھا مجھے وہ پے بہ پے
اس کے ہاتھوں میں مگر خنجر نہ تھا
اپنے ہی ہم زاد سے ڈرتا ہوں میں
یوں کسی آسیب سے کچھ ڈر نہ تھا
ہم یہ سودا اپنے سر میں لے چلے
اس گلی میں ایک بھی پتھر نہ تھا
غزل
پاس اپنے بوریا بستر نہ تھا
مختار شمیم