EN हिंदी
پاس آ کر چلا گیا کوئی | شیح شیری
pas aa kar chala gaya koi

غزل

پاس آ کر چلا گیا کوئی

نیرآثمی

;

پاس آ کر چلا گیا کوئی
ہنستے ہنستے رلا گیا کوئی

دل کی دنیا میں آ گیا کوئی
درد بن کر سما گیا کوئی

یوں بہار آئی اور چلی بھی گئی
جیسے آ کر چلا گیا کوئی

درد الفت سے آشنا کر کے
مجھ سے آنکھیں چرا گیا کوئی

پھر نظر میں بہار رقصاں ہے
پھر تصور پہ چھا گیا کوئی

ہائے رے میری نیم بیداری
آتے آتے چلا گیا کوئی

راز الفت نہ چھپ سکا نیرؔ
آنکھوں آنکھوں میں پا گیا کوئی