پاؤں میرا پھر پڑا ہے دشت میں
وہ ہی آوارہ ہوا ہے دشت میں
اب مری تنہائی کم ہو جائے گی
اک بگولہ مل گیا ہے دشت میں
بستیوں سے بھی زیادہ شور ہے
کون اتنا چیختا ہے دشت میں
کس طرح خود کو بچائے گا کوئی
ایک نادیدہ بلا ہے دشت میں
خاک اور کچھ زرد پتوں کے سوا
تجھ کو آذرؔ کیا ملا ہے دشت میں
غزل
پاؤں میرا پھر پڑا ہے دشت میں
بلوان سنگھ آذر