پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
یہ ناؤ کون سی ہے یہ دریا کہاں کا ہے
دیوار پر کھلے ہیں نئے موسموں کے پھول
سایہ زمین پر کسی پچھلے مکاں کا ہے
چاروں طرف ہیں سبز سلاخیں بہار کی
جن میں گھرا ہوا کوئی موسم خزاں کا ہے
سب کچھ بدل گیا ہے تہہ آسماں مگر
بادل وہی ہیں رنگ وہی آسماں کا ہے
دل میں خیال شہر تمنا تھا جس جگہ
واں اب ملال اک سفر رائیگاں کا ہے
غزل
پانی میں عکس اور کسی آسماں کا ہے
احمد مشتاق