پانی میں اگر عکس کی حالت میں بہوں میں
ممکن ہے کنارے کا کنارہ ہی رہوں میں
اے خامہ گر وقت مجھے اذن سخن دے
تجھ سے تری رفعت کے توسل سے ملوں میں
چلتی ہوئی باتوں میں اسے کام پڑے یاد
ٹھہرے ہوئے لفظوں میں اجازت کا کہوں میں
بینائی کو ترسی ہوئی بے رنگی کے در پر
آنکھوں کی اسیری میں لکھی نظم پڑھوں میں
آوازوں کے جتھے میں ترا لہجہ پرکھتے
خاموشی سے پھیلی ہوئی خاموشی سنوں میں
جنگل سی پر اسرار خموشی لیے آرشؔ
جھرنے کی طرح شور مچاتا بھی رہوں میں
غزل
پانی میں اگر عکس کی حالت میں بہوں میں
سرفراز آرش